اپنی نسل نو کو جدید قتل کاہوں(درسگاہوں) سے بچائیں


 *اپنی نسل کو جدید قتل گاہوں* سے بچایئے  کل میں اپنی بچی کو یونیورسٹی وین تک چھونے جارہا تھا صبح صبح کا وقت تھا اور شدید سردی راستہ سے ایک بچی کو بھی کھڑے دیکھ کر جو اسی وین سے جاتی ہے پک کر لیا ۔وہ میری بچی سے کہنے لگی آج یونیورسٹی میں فنگشن ہے اور جو مجھے سنائی دیا ,وہ یہ تھا کہ فنگشن میں کلچرل ڈانس پارٹی ہے قوالی ہے اور بہت کچھ ہے انٹر ٹینمنٹ کے لیئے آج بڑا مزا آئے گا میرے دماغ میں کلچرل ڈانس پارٹی اٹک گیا مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میرے کانوں نے صیح سنا ہے یا یہ میرے دماغ کا فتور ہے مگر میرا دماغ واقعی سن ہوگیا تھا مجھے گاڑی چلانا بھی مشکل ہورہا تھا جب میں اپنی بچی کو وین میں چھوڑ کر آرہا تھا تو مجھے شدید دکھ اور صدمہ تھا کہ کیا میں اور میرے جیسے بہت سارے لوگ اپنی نسل کو اپنے ہاتھ سے قتل گاہوں کے حوالے کر رہے ہیں آج ہمارے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے مزید معلوم کرنے پر پتا چلا کہ اس قسم کی پارٹیاں ان اداروں کا روز کا معمول ھیں یہ صرف چند ٹکوں کی خاطر شیطان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اس پر مجھے بے ساختہ اکبر آلہٰ آبادی کا 80/90 برس پہلے کہا وہ شعر نہ صرف یاد آیا بلکہ اس کی تشریح بھی سمجھ آگئی " یوں قتل اولاد میں بد نام نہ ھوتا۔۔۔۔۔۔۔آفسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی" واقعی آج ہماری اس نسل کو جو وقت کے فرعونوں سے مستقبل میں ٹکر لیتی اسے ان جدید مذبح خانوں میں یوں قتل کیا جارہا ہے, بس فرق یہ ہے کل بنی اسرائیلی اپنی اولاد کو فرعون کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کی فکر کرتے تھے مگر آج ہم خوشی خوشی اپنی نسل کو خود ان قتل گاہوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں فرعونی نظام کے خلاف نہ کوئ فکر ،نہ کوئ احتجاج بلکہ اسی نظام کا حصہ بنکر اپنا حصہ وصول کررہے ہیں ابھی گزشتہ ایک دودن پہلے کی خبر تھی کہ پریس کلب میں بھی ایسی ایک پارٹی کا اہتمام تھا بس نام اسکا فن گالا دیا گیا تھا ہالانکہ وہاں نہ فن تھا نہ تہذیب نہ شعور نہ روشنی صرف اور صرف نبی محترم بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کی کلیوں اور پھولوں کو مسل دینے کے جشن کے طور پر رقسِ شیطاں تھا, دکھ اس بات کا تھا کہ شیطان نے اپنے دجل وفریب کے ایسے جال بجھائے کہ اس کے دجل وفریب سے دنیا کو آگاہ کرنے والے بھی اس دجل وفریب کو مہمیز دینے کا ذریعہ بن گئے کچھ دن پہلے سنا تھا اور خوش ہوئے تھے کہ یہاں اسلام پسندوں نے اپنے قدم گاڑلیئے ہیں اب یہاں فن کے نام پر فنکاری نہیں ھوگی ،تہذیب کے نام پر بد تہذیبی نہی ہوگی شعور کے نام پر شعور کا قتل نہیں ہوگا اور روشنی کے نام پر اندھیروں کا سودا نہیں ہوگا مگر سب کچھ وہی تھا, تب سید مودودی کی فکر اور فھم دین سے حاصل کردا وہ یادہانی یاد آئی کہ پاکی ناپاکی سے نہیں حاصل کی جاسکتی باطل کے علمبرداروں کے ساتھ ملکر انکے رنگ میں رنگ کر اپنا رنگ دنیا کو دیکھایا نہیں جا سکتا نا پاکی صرف پاکی سے دور کی جاسکتی ہے اور باطل کو باطل سے نہیں صرف حق سے شکست دی جا سکتی ہے سید مودودی رحمتہ اللہ کے وہ الفاظ سونے کے تار سے لکھے جانے کے قابل ہیں" اسلامی انقلاب ٹھیٹ اسلامی طریقوں سے ہی آسکتا ھے اس کا ماخذ صرف اور صرف قرآن و سنت اور آثار صحابہ ہے اس کے علاؤہ جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ دجالی فتنہ اور خود فراموشی کے دلدل میں دہنساتا چلا جائے گا سید مودودی کی کل تو یہ بات شائد ایک فلسہ تھی لیکن آج سید مودودی کے حقیقی شاگردوں حماس نے اس سے ایک حقیقت میں بدل دیا  کہ مظبوطی سے قرآن وسنت اور آثار صحابہ سے رہنمائی کے ذریعہ وقت کے فرعونوں, باطل اور شیطانوں کے علمبرداروں کا مقابلہ کیا جاسکا۔ ابو عبیدہ کی للکار نے چودہ سو برس بعد ایک دفعہ پھر کفار کی صفوں میں صفِ ماتم بچھادی ہے اس لئیے آج ضرورت ھے اپنے بچوں اور اپنی نسل کو قتل گاہوں سے بچانے گی اور شیطان کی بچھائی ھوئی بساط کو الٹنے کی یہ صرف اور صرف مظبوطی سے قرآن وسنت کے طریقہ پر عمل پیرا ہوکر ہی الٹی جا سکتی ہے نہ کے کسی شاٹ کٹ کے ذریعہ اب ترکی سے نہیں, حماس کے مجاھدین سے روشنی لینے کی ضرورت ھے (راقم ؛- سید حسین احمد مدنی)

Popular Posts